Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

تذکرہ نبی کریمؐ کی سب سے اچھی بیٹی کا

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2014ء

جب سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں یہ ہار پیش کیا گیا تو آپ ﷺ کو اپنی مرحومہ بیوی کی یاد اس حد تک ستائی کہ آپ ﷺآبدیدہ ہوگئے۔ پس آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو واپس بھیج دو
ابولبیب شاذلی

حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی پیاری بیٹی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاتھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضور ﷺ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ ان کی ولادت کے وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک تیس برس تھی۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول اللہ ﷺ کی حقیقی خالہ جن کا نام ہالہ تھا کو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑا انس تھا‘ وہ دل میں ارادہ رکھتی تھیں کہ اپنے بیٹے ابوالعاص کیلئے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ اپنی بہن حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے طلب کریں۔ پس جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاسن شعور کو پہنچیں تو ہالہ نے اپنی بہن حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ ابوالعاص بن ربیع قبیلہ بنی عبدمناف بن قصی میں سے تھے۔ وہ مکہ معظمہ میں ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو صاحب مال تھے۔ ان کا پیشہ تجارت تھا جبکہ کردار کے اعتبار سے لوگ ان پر اس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ اپنی امانتیں ان کے پاس رکھوانے میں کسی قسم کی بے اعتباری محسوس نہ کرتے۔ پھر انہیں حضرت محمدﷺ سے قدرتی طور پر لگاؤ بھی تھا۔ پس جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی بہن ہالہ کے ارادہ کو آنحضور ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺ نے اس بات کو پسند فرمایا اور رشتہ کیلئے بخوشی اجازت دے دی کیونکہ ابوالعاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ )بن ربیع نہ صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھانجے تھے بلکہ ان کا نسب چہارم پشت میں آنحضور ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے جاملتا ہے۔ یوں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے بخیروخوبی انجام پایا جوکہ بعدازاں ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا۔ جب حضورﷺ منصب رسالت پر فائز ہوئے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فوراً اسلام قبول کرلیا اور ایمان لے آئیں۔
رمضان المبارک سنہ 2 ہجری میں حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ میدان بدر کے مقام پر پیش آیا تو اللہ کی خاص رحمت و احسان سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور قریش مکہ کے بہت سے آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ ان گرفتار ہونےوالوں میں ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی شامل تھے۔ بعدازاں جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کیلئے مدینہ کی طرف فدیہ کے سلسلے میں وفد بھیجا تو ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فدیہ کیلئے ان کے بھائی عمرو بن ربیع آیا‘ اس وقت حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہامکہ ہی میں تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عمر کے ہاتھ اپنا یمنی عیقی کا ایک ہار اپنے شوہر کی رہائی کیلئے بھیجا۔ یہ ہار حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو ان کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے وقت جہیز میں دیا تھا۔ جب سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں یہ ہار پیش کیا گیا تو آپ ﷺ کو اپنی مرحومہ بیوی کی یاد اس حد تک ستائی کہ آپ ﷺآبدیدہ ہوگئے۔ پس آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو واپس بھیج دو۔ یہ اس کی ماں کی نشانی ہے۔ ابوالعاص کا فدیہ یہ ہے کہ وہ مکہ جاکر حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فوراً مدینہ روانہ کردے‘‘
تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بھی یہ شرط قبول کرلی چنانچہ انہیں رہا کروایا گیا اور وہ بخیروعافیت مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ آنحضور ﷺ نے ان کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا تاکہ وہ بطن یا حج کے مقام پر ٹھہر کر انتظار کریں اور جوں ہی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ سے وہاں پہنچیں تو انہیں ساتھ لے کر مدینہ منورہ آجائیں۔ حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے وعدہ کے مطابق اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ہمراہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مکہ سے روانہ کردیا۔ کفار مکہ کو جب یہ خبر ملی کہ سرور کائنات ﷺ کی بیٹی مدینہ تشریف لے جارہی ہیں تو انہوں نے کنانہ بن ربیع اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تعاقب کیا یہاں تک کہ ’’ذی طویٰ‘‘ کا مقام آیا تو ان دونوں کو جاگھیرا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اونٹ پر سوار تھیں۔ کفار کی جماعت میں سے ہبار بن اسود نے اونٹ کا منہ پھیرنے کیلئے اپنا نیزہ گھمایا جس کے نتیجے میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اونٹ پر سے گرپڑیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حمل سے تھیں۔ اس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سخت چوٹیں آئیں جس سے حمل ساقط ہوگیا۔ کنانہ نے مصلحت وقت کو سمجھا اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو واپس لے گئے‘ بعدازاں چند دن بعد وہ رات کے وقت چپکے سے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہمراہ لے کر بطن پہنچے اور انہیں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بن حارثہ کے سپرد کرکے مکہ واپس چلے گئے۔ پس حضرت زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس واقعہ کے بعد زیادہ عرصہ تک زندہ نہ رہیں اور سنہ 8 ہجری میں خالق حقیقی سے جاملیں۔ اس کا سبب اسقاط حمل کی وہ تکلیف تھی جو پہلی دفعہ مکہ سے آتے ہوئے ذی طویٰ کے مقام پر انہیں پہنچی تھی۔حضرت ام یمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول کریم ﷺ کی ہدایات کے مطابق میت کو غسل دیا۔ جب غسل سے فارغ ہوئیں تو حضورﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے اپنا تہہ بند عنایت فرمایا اور ہدایت کی کہ اسے کفن کے اندر پہنا دو۔مشہور صحابیہ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ میں بھی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بنت رسول اللہ ﷺ کے غسل میں شریک تھی۔ غسل کا طریقہ حضور ﷺ خود بتاتے جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پہلے ہر عضو کو تین یا پانچ بار غسل دو اور اس کے بعد کافور لگاؤ۔حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ خود رسول کریم ﷺ نے پڑھائی اور حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے انہیں قبر میں اتارا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ خود بھی قبر میں اترے۔ جس دن حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی تو حضور ﷺ بے حد غمگین تھے۔ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ ﷺ فرمارہے تھے۔ ’’زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری سب سے اچھی لڑکی تھی جو میری محبت میں ستائی گئی‘‘ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیچھے رہ جانے والی اولاد میں ایک لڑکا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور لڑکی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شامل تھے۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 029 reviews.